ہوئی مصطفیٰ کی نظر اگر نہیں کوئی فکر حساب میں

ہوئی مصطفیٰ کی نظر اگر نہیں کوئی فکر حساب میں

کہ شفاعتیں ہیں بصد ادب کھڑی ان کی عالی جناب میں


رخ مصطفیٰ کی شناخت کا ملا خوش نصیب کو ہی شرف

بڑا بد نصیب تھا بولہب پھرا تاحیات سراب میں


وہی انبیا کے وکیل ہیں وہی امتوں کے کفیل ہیں

وہ نشانِ رب جلیل ہیں ہے انہیں کی نعت کتاب میں


بڑی مشکلوں کا تھا مرحلہ ہوئے جب سوال مزار میں

بڑے کام آگئیں عادتیں پڑھا جب درود جواب میں


وہ کمالِ رب عظیم ہیں وہ جمالِ رب کریم ہیں

مری نیند میری نماز ہو انہیں دیکھ لوں جو میں خواب میں


تو کریم ہے ترا رب کریم تو رحیم ہے ترا رب رحیم

تو ہے بحر جود و سخا شہا ہے مرا شمار حباب میں


ہوئیں سر دنا کی جو منزلیں فتدلیّٰ سے ملیں رفعتیں

سرِ لامکاں ہوئیں قربتیں تھے ہزار جلوے حجاب میں


یہ ہے نورِ احمدِ مجتبیٰ دو جہاں میں جس کا ظہور ہے

یہ پسینہ میرے نبی کا ہے جو مہک رہا ہے گلاب میں


ملا نام نظمی کو نعت میں یہ عطا رضا کے قلم کی ہے

کہاں میری اتنی بساط تھی نہ حساب میں نہ کتاب میں

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

رات اور دن شمار کرتے ہیں

سرِ محشر مرے عصیاں کے جب دفتر نکلتے ہیں

سرخیاں حبِ نبی کی جس کے دل میں رچ گئیں

پہلی سی وہ فضا میں انگڑائیاں نہیں ہیں

اندھے شیشوں کو اجالے جو عطا کرتے ہیں

بسی ہے جب سے وہ تصویرِ یار آنکھوں میں

ہم سر کے بل چلیں گے طیبہ کے راستے میں

فلک پہ دھومیں مچی ہوئی ہیں ملائکہ جھومے جا رہے ہیں

سرو گل زارِ ربِ جلیل آپ ہی ہیں

کیسا انسان یہ پیدا ہوا انسانوں میں