سرِ محشر مرے عصیاں کے جب دفتر نکلتے ہیں

سرِ محشر مرے عصیاں کے جب دفتر نکلتے ہیں

شفاعت پر کمر باندھے مرے سرور نکلتے ہیں


لعابِ حضرتِ احمد کا یہ اعجاز دیکھا ہے

علی بیمار آئے، فاتحِ خیبر نکلتے ہیں


بلالِ با وفا تپتی ہوئی چٹّان پر لیٹے

محبت کرنے والے ظلم کے خوگر نکلتے ہیں


مرے سرکار کی نسبت کا مل جائے صدف تب تو

ابوبکر و عمر، عثماں علی، گوہر نکلتے ہیں


مدینہ والے آقا کی محبت ایسا دریا ہے

جو اس میں ڈوب جاتے ہیں سرِ کوثر نکلتے ہیں


بریلی سے چلے مارہرہ پہنچے اور پھر اجمیر

مدینے کے لیے بغداد سے ہو کر نکلتے ہیں


مرے سرکار غوثِ پاک کا دربارِ عالی ہے

جو رہزن بن کے آتے ہیں ولی بن کر نکلتے ہیں


امام احمد رضا کو پیر نے نسبت عطا کر دی

مرید حجرے سے بن کر پیر کا پیکر نکلتے ہیں


اگر ہو نعت کا میداں تو مضموں کی کمی کیا ہے

زمیں سنگلاخ ہو تو شعر بھی بہتر نکلتے ہیں


بڑے بھائی کا کرتا اور پجامہ چھوٹے بھائی کا

یہ دجال آج کل اس روپ میں اکثر نکلتے ہیں


قلم احمد رضا کا سنیت کی آبرو ٹھہرا

وہابی کے لیے الفاظ کے نشتر نکلتے ہیں


ملا نظمی تجھے کلکِ رضا کا فیض اس درجہ

ترے اشعار اندازِ رضا بن کر نکلتے ہیں

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

کانِ کرامت شانِ شفاعت صلی اللہ علیہ وسلم

جن کے شہرِ پاک کی قرآں میں آئی ہے قسم

شافعِ روزِ محشر پہ لاکھوں سلام

ان کے در کے بھکاری بادشاہوں کو لجائیں

رات اور دن شمار کرتے ہیں

سرخیاں حبِ نبی کی جس کے دل میں رچ گئیں

پہلی سی وہ فضا میں انگڑائیاں نہیں ہیں

اندھے شیشوں کو اجالے جو عطا کرتے ہیں

ہوئی مصطفیٰ کی نظر اگر نہیں کوئی فکر حساب میں

بسی ہے جب سے وہ تصویرِ یار آنکھوں میں