اندھے شیشوں کو اجالے جو عطا کرتے ہیں

اندھے شیشوں کو اجالے جو عطا کرتے ہیں

ہم انھیں معدنِ انوار کہا کرتے ہیں


ہم وہ عاصی ہیں، عطاؤں پہ خطا کرتے ہیں

وہ وہ حاتم ہیں، خطاؤں پہ عطا کرتے ہیں


نجدی کہتا ہے انھیں اپنا سا اک عام بشر

ہم انھیں احمدِ مختار کہا کرتے ہیں


جن کا کلمہ پڑھیں توہین کریں ان کی ہی

زندگی ایسی بھی کچھ لوگ جیا کرتے ہیں


آقا خود دیتے ہیں ہم جیسے غلاموں کو جواب

اٹھے بیٹھے جو درود ان پہ پڑھا کرتے ہیں


سو جا، سوجا، کہ جوں سوتی ہے نویلی دولہن

قبر میں مجھ کو فرشتے یہ ندا کرتے ہیں


جسم بے سایہ کا سایہ تھے جنابِ حسنین

خانداں یوں ہی نواسوں سے چلا کرتے ہیں


حرمتِ مے ہے مسلم کہ ہے رب کا فرمان

ان کا کیا جو مئے روحانی پیا کرتے ہیں


لکھے جائے ترے محبوب کی نعتیں یارب

سب ہی نظمی کے لیے ایسی دعا کرتے ہیں

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

ان کے در کے بھکاری بادشاہوں کو لجائیں

رات اور دن شمار کرتے ہیں

سرِ محشر مرے عصیاں کے جب دفتر نکلتے ہیں

سرخیاں حبِ نبی کی جس کے دل میں رچ گئیں

پہلی سی وہ فضا میں انگڑائیاں نہیں ہیں

ہوئی مصطفیٰ کی نظر اگر نہیں کوئی فکر حساب میں

بسی ہے جب سے وہ تصویرِ یار آنکھوں میں

ہم سر کے بل چلیں گے طیبہ کے راستے میں

فلک پہ دھومیں مچی ہوئی ہیں ملائکہ جھومے جا رہے ہیں

سرو گل زارِ ربِ جلیل آپ ہی ہیں