اندھے شیشوں کو اجالے جو عطا کرتے ہیں
ہم انھیں معدنِ انوار کہا کرتے ہیں
ہم وہ عاصی ہیں، عطاؤں پہ خطا کرتے ہیں
وہ وہ حاتم ہیں، خطاؤں پہ عطا کرتے ہیں
نجدی کہتا ہے انھیں اپنا سا اک عام بشر
ہم انھیں احمدِ مختار کہا کرتے ہیں
جن کا کلمہ پڑھیں توہین کریں ان کی ہی
زندگی ایسی بھی کچھ لوگ جیا کرتے ہیں
آقا خود دیتے ہیں ہم جیسے غلاموں کو جواب
اٹھے بیٹھے جو درود ان پہ پڑھا کرتے ہیں
سو جا، سوجا، کہ جوں سوتی ہے نویلی دولہن
قبر میں مجھ کو فرشتے یہ ندا کرتے ہیں
جسم بے سایہ کا سایہ تھے جنابِ حسنین
خانداں یوں ہی نواسوں سے چلا کرتے ہیں
حرمتِ مے ہے مسلم کہ ہے رب کا فرمان
ان کا کیا جو مئے روحانی پیا کرتے ہیں
لکھے جائے ترے محبوب کی نعتیں یارب
سب ہی نظمی کے لیے ایسی دعا کرتے ہیں
شاعر کا نام :- سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی
کتاب کا نام :- بعد از خدا