پہلی سی وہ فضا میں انگڑائیاں نہیں ہیں

پہلی سی وہ فضا میں انگڑائیاں نہیں ہیں

طیبہ سے دور ہیں ہم، رعنائیاں نہیں ہیں


بیٹھے اٹھے ہمیشہ آقا کا بس تصور

میری طرح کسی کی تنہائیاں نہیں ہیں


وہ گھر نہیں ہے، مسکن شیطان کا ہے واللہ

صلِّ علیٰ کی جس گھر شہنائیاں نہیں ہیں


آقا کا جسمِ اقدس بے سایہ تھا یقینا

نعلین و مو تلک کی پرچھائیاں نہیں ہیں


نبیوں کو اپنے جیسا عامی بشر جو سمجھے

نجدی ترے دھرم میں سچائیاں نہیں ہیں


نعتیں اساتذہ کی کافی نظر سے گزریں

لیکن رضا کے جیسی گہرائیاں نہیں ہیں


سامانِ مغفرت ہوں نعتیں بروز محشر

نظمی میں یوں تو کوئی اچھائیاں نہیں ہیں

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

شافعِ روزِ محشر پہ لاکھوں سلام

ان کے در کے بھکاری بادشاہوں کو لجائیں

رات اور دن شمار کرتے ہیں

سرِ محشر مرے عصیاں کے جب دفتر نکلتے ہیں

سرخیاں حبِ نبی کی جس کے دل میں رچ گئیں

اندھے شیشوں کو اجالے جو عطا کرتے ہیں

ہوئی مصطفیٰ کی نظر اگر نہیں کوئی فکر حساب میں

بسی ہے جب سے وہ تصویرِ یار آنکھوں میں

ہم سر کے بل چلیں گے طیبہ کے راستے میں

فلک پہ دھومیں مچی ہوئی ہیں ملائکہ جھومے جا رہے ہیں