بسی ہے جب سے وہ تصویرِ یار آنکھوں میں

بسی ہے جب سے وہ تصویرِ یار آنکھوں میں

سمٹ سی آئی ہے فصلِ بہار آنکھوں میں


زمینِ طیبہ کی مٹی بنے مرا سرمہ

رہے ہمیشہ نبی کا دیار آنکھوں میں


مری نگاہیں سر عرش جا کے ٹھہریں گی

ملوں جو نعلِ نبی ایک بار آنکھوں میں


میں بھر کے آیا ہوں آنکھوں میں گنبدِ خضریٰ

رہے گا حشر تلک وہ خمار آنکھوں میں


وہ لا مکاں کے مسافر بنے شبِ اسریٰ

خدا کے جلوے سمائے ہزار آنکھوں میں


اے حاجیو ذرا رکنا میں چوم لوں تم کو

تمھارے قدموں کا مل لوں غبار آنکھوں میں


ہے مِلک اس کی شمال و جنوب شرق و غرب

سجائے رکھتا ہے جو چار یار آنکھوں میں


ترے قلم کو رضا کی رضا ملی نظمی

تبھی زباں میں اثر ہےنکھار آنکھوں میں

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

سرِ محشر مرے عصیاں کے جب دفتر نکلتے ہیں

سرخیاں حبِ نبی کی جس کے دل میں رچ گئیں

پہلی سی وہ فضا میں انگڑائیاں نہیں ہیں

اندھے شیشوں کو اجالے جو عطا کرتے ہیں

ہوئی مصطفیٰ کی نظر اگر نہیں کوئی فکر حساب میں

ہم سر کے بل چلیں گے طیبہ کے راستے میں

فلک پہ دھومیں مچی ہوئی ہیں ملائکہ جھومے جا رہے ہیں

سرو گل زارِ ربِ جلیل آپ ہی ہیں

کیسا انسان یہ پیدا ہوا انسانوں میں

وہ کمالِ حسنِ حضور ہے کہ گمان نقص ذری نہیں