ہر کرم سے جدا ہے ان کا کرم

ہر کرم سے جدا ہے ان کا کرم

ہر طلب سے سوا ہے ان کا کرم


بے طلب ملتی ہے وہاں خیرات

بے نیازِ دعا ہے ان کا کرم


ہم سے پوچھو کہ غم نصیبوں کو

کس قدر چاہتا ہے ان کا کرم


جس کا پرسانِ حال کوئی نہ ہو

اس کا مشکل کشا ہے ان کا کرم


بے اماں کی اماں ہے ان کی نظر

ناتواں کا عصا ہے ان کا کرم


کھل کے برسی ہے جب بھی برسی ہے

رحمتوں کی گھٹا ہے ان کا کر م


اتنے دامن کہاں سے لائے کوئی

اک مسلسل عطا ہے ان کا کرم


بخششوں کی سند ہے ان کا مزاج

عہدِ روزِ جزا ہے ان کا کرم


دل نہ چھوٹا کیا کرو اقبؔال

تم کو پہچانتا ہے ان کا کرم

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

کھلا ہے سبھی کے لئے باب رحمت وہاں کوئی رتبے میں ادنی ٰ نہ عالی

ہم اس ادا سے شہرِ سرکار تک گئے ہیں

نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں

جنت کی نعمتوں سے میں منکر نہیں مگر

دعائے قلبِ خلیل ہیں وہ

کبھی ان کی خدمت میں جا کے تو دیکھو

دنیا میں جو فردوس عطا ہم کو ہوئی ہے

سوتے میں نعتِ پاک ہوئی ہے کبھی کبھی

جو اسمِ گرامی شرفِ لو ح و قلم ہے

اپنی ڈیوڑھی کا بھکاری مجھے کردیں شاہا