ہم اس ادا سے شہرِ سرکار تک گئے ہیں

ہم اس ادا سے شہرِ سرکار تک گئے ہیں

آنکھوں سے ہر قدم پر سجدے چھلک گئے ہیں


ممکن نہ ہوسکی جب روضے پہ لب کشائی

پلکوں سے کچھ فسانے خود ہی ڈھلک گئے ہیں


سرکارؐ اب تو سن لیں فریاد عاصیوں کی

آہیں بھی تھک گئی ہیں آنسو بھی تھک گئے ہیں


غربت میں صبحِ طیبہ جب یا د آگئی ہے

فکر و نظر کی حد تک جادے چمک گئے ہیں


جس جس روش سے گزری سرکار کی سواری

گلشن تو پھر ہیں گلشن صحرا مہک گئے ہیں


جس سمت اُٹھ گئی ہیں رحمت مزاج نظریں

ماحول کی جبیں سے سجدے ٹپک گئے ہیں


آسان ان سے گزرے دیوانے مصطفیٰ کے

جن منزلوں میں اہل ِ دانش بھٹک گئے ہیں


اقبؔال کس نے چھیڑا یہ نعتیہ ترانہ

افسردہ انجمن میں شعلے لپک گئے ہیں

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

ہم بھی ایک نعت سنانے کے لئے آئے

خوشبو کہتی ہے کہ میں شاید آستاں تک آگیا

میں نہ وہابی ‘ نہ قادیانی‘ نہ میں بہائی ‘ نہ خارجی ہوں

جو خوش نصیب حرم میں قیام کرتے ہیں

کھلا ہے سبھی کے لئے باب رحمت وہاں کوئی رتبے میں ادنی ٰ نہ عالی

نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں

جنت کی نعمتوں سے میں منکر نہیں مگر

دعائے قلبِ خلیل ہیں وہ

ہر کرم سے جدا ہے ان کا کرم

کبھی ان کی خدمت میں جا کے تو دیکھو