خوشبو کہتی ہے کہ میں شاید آستاں تک آگیا

خوشبو کہتی ہے کہ میں شاید آستاں تک آگیا

اللہ اللہ چلتے چلتے میں کہاں تک آگیا


گھر سے میں شہرِ نبیؐ پہنچا تو مجھ کو یوں لگا

چل کے دوزخ سے میں گلزارِ جناں تک آگیا


زندگی کی چلچلاتی دھوپ میں جھلسا ہوا

آبلہ پا اک مسافر سائباں تک آگیا


ٹھوکریں کھا کر زمانے بھر کی ایک حرماں نصیب

بارگاہ ِ چارہء بے چارگاں تک آگیا


زخم خوردہ اک پرندہ پنجہء صیّاد کا

توڑ کر زنداں کو اپنے آشیاں تک آگیا


آستانِ پاک پر شوقِ حضوری کا سوال

باوجودِ ضبط اشکوں کی زباں تک آگیا


عشق آقاؐ کا تقدس دل میں جو محفوظ ہے

نعت میں ڈھل کے مرے حسنِ بیاں تک آگیا


ہیں جہاں کے خادموں میں حضرتِ جبریل بھی

خوبئ قسمت سے میں عاصی وہاں تک آگیا


سجدے کرتے ہیں جہاں آکر فرشتے رات دن

بے ادب اقبؔال کو دیکھو یہاں تک آگیا

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

مجھ کو قسمت سے جو آقاؐ کا زمانہ ملتا

مِرے نبؐی میری زندگی ہیں

کیسے ہوئے مدینے سے رخصت نہ پوچھیے

ممکن نہ ہو جب پیکرِ انوار کی تصویر

ہم بھی ایک نعت سنانے کے لئے آئے

میں نہ وہابی ‘ نہ قادیانی‘ نہ میں بہائی ‘ نہ خارجی ہوں

جو خوش نصیب حرم میں قیام کرتے ہیں

کھلا ہے سبھی کے لئے باب رحمت وہاں کوئی رتبے میں ادنی ٰ نہ عالی

ہم اس ادا سے شہرِ سرکار تک گئے ہیں

نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں