کیسے ہوئے مدینے سے رخصت نہ پوچھیے

کیسے ہوئے مدینے سے رخصت نہ پوچھیے

دل پر گزر گئی جو قیامت نہ پوچھیے


مڑمڑ کے پیچھے دیکھنا ہر ہر قدم کے بعد

اس اضطراب و کرب کی حالت نہ پوچھیے


جو سمیٹ لایا ہوں روضے کے پاس سے

اس ایک چٹکی خاک کی قیمت نہ پوچھیے


شہرِ نبیؐ کی گلیوں میں دیتے ہیں جو صدا

ان سائلوں کی عزت و حرمت نہ پوچھیے


جس جس گلی سے گزرے ہیں ہو کر کبھی حضورؐ

اُن میں بسی ہوئی ہے جو نکہت نہ پوچھیے


نعت نبیؐ کی فکر میں شام و سحر دَرُود

ہم سے ہماری طرزِ عبادت نہ پوچھیے


ہر صنفِ شعر اپنی جگہ خوب ہے ‘ مگر

نعتِ رسول پاکﷺ کی لذّت نہ پوچھیے


جس کا عمل بھی ٹھیک ہو اقبؔال ساتھ ساتھ

اس نعت گو کا حسنِ عقیدت نہ پوچھیے

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

یہ نعت مصطفیٰ کا معجزہ ہے

گنہ گاروں کو نبیﷺ کا آستاں بخشا گیا

یامحمد مصطفیٰ محبوبِ رب العالمیں

مجھ کو قسمت سے جو آقاؐ کا زمانہ ملتا

مِرے نبؐی میری زندگی ہیں

ممکن نہ ہو جب پیکرِ انوار کی تصویر

ہم بھی ایک نعت سنانے کے لئے آئے

خوشبو کہتی ہے کہ میں شاید آستاں تک آگیا

میں نہ وہابی ‘ نہ قادیانی‘ نہ میں بہائی ‘ نہ خارجی ہوں

جو خوش نصیب حرم میں قیام کرتے ہیں