ممکن نہ ہو جب پیکرِ انوار کی تصویر
سرکار کی تو صیف کا حق کیسے ادا ہو
جب لہجے میں قدرت ہو نہ لفظوں پہ بھروسہ
شایانِ نبیؐ کیسے کوئی مدح سرا ہو
ہر دَور کی تاریخ سے میں پوچھ رہا ہوں
ہے تیرے یہاں کوئی جو آقاؐ سے بڑا ہو
کوئی بشر ایسا کہ جو معراج ِ بسر ہو
کوئی بڑا ایسا جو بڑوں سے بھی بڑا ہو
اُمیّ کوئی ایسا جو معلّم ہو جہاں کا
بے زَر کوئی ایسا جو شہہِ دوسرا ہو
ہادی کوئی ایسا جو صداقت ہو سراپا
مصلح کوئی ایسا جو امانت میں کھرا ہو
مفلس کوئی ایسا کہ جو ہو حاتمِ دوراں
منعم کوئی ایسا جو غریبوں میں پَلا ہو
مشفق کوئی ایسا جو یتیموں کا ہو والی
پیکر کوئی ایسا جو ضعیفوں کا عصا ہو
فاتح کوئی ایسا کہ جو ہو مہرِ مجّسم
اعدا سے بھی جس نےکبھی بدلہ نہ لیا ہو
مخدوم بھی ایسا کہ جو ہوخلق کا خادم
اورخواجہ بھی ایسا کہ جفاکش جو رہا ہو
ایسا کوئی درویش کہیں دیکھا ہے تو نے
شاہوں نے جسے سجدہء تعظیم کیا ہو
ایسا کوئی سلطان کہیں ہو تو بتا دے
مٹی کا دیا جس کے شبستاں میں جلا ہو
ایسا کوئی سرتاج کہیں ہو تو دیکھا دے
جس نے کئی دن تک کبھی فاقہ بھی کیا ہو
ہے کوئی جو عاصی کو بھی سینے سے لگا لے
اور خون کے پیاسوں کے لئے محوِ دعا ہو
خاکی کوئی ایسا جو سرِ عرش معلّیٰ
خود خالقِ کونین کا مہمان رہا ہو
ہیں تجھ میں اکابر بھی ‘ آئمہ بھی ‘ نبیؐ بھی
ہے ان میں مگر کوئی جو محبوبِ خدا ہو
شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم
کتاب کا نام :- زبُورِ حرم