حضورِ عالی کی مدحت کا لطف لیتا ہوں

حضورِ عالی کی مدحت کا لطف لیتا ہوں

میں دور ہو کے بھی قربت کا لطف لیتا ہوں


مدینہ پاک تصور میں جب سے بیٹھ گیا

میں وقفے وقفے سے جنت کا لطف لیتا ہوں


مرے مزاج کی رونق ہے یادِ شہرِ نبی

طبیعتًا میں نفاست کا لطف لیتا ہوں


غلامِ شاہ سمجھ کر کوئی حقیر کہے

قسم خدا کی حقارت کا لطف لیتا ہوں


وہاں پہ دیکھتا رہتا ہوں صرف روضے کو

میں ایسے وقتِ غنیمت کا لطف لیتا ہوں


غلامئِ شہِ کونین کے وسیلے سے

میں راستوں کی اطاعت کا لطف لیتا ہوں


مچل سا جاتا ہے ذکرِ دیارِ اطہر سے

میں دل کی بس اسی عادت کا لطف لیتا ہوں


تبسم اپنے نبی کی ثناء کے صدقے سے

جہاں بھی جاتا ہوں عزت کا لطف لیتا ہوں

دیگر کلام

نہ قوسِ قزح نہ رنگِ گُل

تشنگی قلبِ پریشاں کی مٹا دو یارو

جس کو کوئی آپ کے جیسا لگا

نسلِ حق کی باتیں کر کر کے جئیں تو نعت ہو

نعت لکھتے ہوئے اِک مدحً سرا کیف میں ہے

طیبہ کی یاد جانے کہاں لے گئی مجھے

یہ ہے بزمِ رحمتِ دو جہاں

لِلّہ الحمد کہ ہم نے اسے چاہا آہا

تنویرِ شش جہات ہے روپوشِ نقش پا

آج کیا وقت سحر مطلعِ تازہ اترا