طیبہ کی یاد جانے کہاں لے گئی مجھے

طیبہ کی یاد جانے کہاں لے گئی مجھے

شاید جہاں سے آئی ، وہاں لے گئی مجھے


روح الامیں جہاں نہ گئے میری فکرِ نعت

پرواز کرتے کرتے وہاں لے گئی مجھے


یادِ مدینہ وادئ کیف و سرور میں

کر کے زمانے بھر سے نہاں لے گئی مجھے


نسبت مکینِ گنبدِ خضرٰی کی حشر میں

عزت کے ساتھ سوئے جِناں لے گئی مجھے


سرکار تو کجا، مجھے سکھلا کے عشقِ شاہ

جنت کی وادیوں میں تو ماں لے گئی مجھے


میری کتاب قابلِ رحمت نہ تھی مگر

میرے نبی کی چھوٹی سی ہاں لے گئی مجھے


شاہوں کی سلطنت ہے تبسم کے زیرِ پا

اُن کی ثنا کی فکر جہاں لے گئی مجھے

دیگر کلام

تشنگی قلبِ پریشاں کی مٹا دو یارو

جس کو کوئی آپ کے جیسا لگا

نسلِ حق کی باتیں کر کر کے جئیں تو نعت ہو

نعت لکھتے ہوئے اِک مدحً سرا کیف میں ہے

حضورِ عالی کی مدحت کا لطف لیتا ہوں

یہ ہے بزمِ رحمتِ دو جہاں

لِلّہ الحمد کہ ہم نے اسے چاہا آہا

تنویرِ شش جہات ہے روپوشِ نقش پا

آج کیا وقت سحر مطلعِ تازہ اترا

لہجۂِ گل سے عنادل نے ترنم سیکھا