تشنگی قلبِ پریشاں کی مٹا دو یارو

تشنگی قلبِ پریشاں کی مٹا دو یارو

دیدِ شہرِ شہِ خوباں کی دعا دو یارو


یہ طبیبانِ زمانہ مجھے کیا سمجھیں گے

ترس کھاؤ، انہیں سمجھا کے اٹھا دو یارو


شاعرِ نعت ہوں ، کہئیے نہ غزل کہنے کو

مجھ کو میری ہی نظر سے نہ گرا دو یارو


ہجرِ طیبہ تو مقدر سے ملا کرتا ہے

اشک بہتے ہیں تو روکو نہ، بہا دو یارو


غم کے ماروں کو نظر والے یہی کہتے ہیں

مشکل آ جائے تو آقا کو صدا دو یارو


یونہی اِک نعت کی مجلس ہو مدینے میں کبھی

میں دعا کرتا ہوں تم ہاتھ اٹھا دو یارو


کاش سرکار فرشتوں سے کہیں روزِ جزاء

میرے پہلو میں تبسم کو جگہ دو یارو

دیگر کلام

خواب نے مجھ کو مدینے کے نگر میں رکھا

آراستہ کروں گا یوں اپنے سفر کو میں

قلم بہرِ مدحت اٹھانے لگے ہیں

مجھ نعت کے گدا پہ یہ احسانِ نعت ہے

نہ قوسِ قزح نہ رنگِ گُل

جس کو کوئی آپ کے جیسا لگا

نسلِ حق کی باتیں کر کر کے جئیں تو نعت ہو

نعت لکھتے ہوئے اِک مدحً سرا کیف میں ہے

حضورِ عالی کی مدحت کا لطف لیتا ہوں

طیبہ کی یاد جانے کہاں لے گئی مجھے