خواب نے مجھ کو مدینے کے نگر میں رکھا

خواب نے مجھ کو مدینے کے نگر میں رکھا

رات نے گویا مجھے نورِ سحر میں رکھا


منزلِ قربِ شہنشاہِ مدینہ کے لئے

خود کو بچپن سے ہی سامانِ سفر میں رکھا


دعویِ ہمسرئ عرش نہیں ہے لیکن

میں نے بھی دل کو تری راھگزر میں رکھا


تلخئِ حشر میں خالق نے بھی احساسِ سکوں

ساقئِ چشمہِ کوثر کی نظر میں رکھا


نسلِ آدم کو ملاقات کے گُر آنے تک

رب نے بھی یار کو تصویرِ بشر میں رکھا


ہاتھ اٹھانے کا کہا کھول کے دہلیزِ عطا

اپنے منگتے کو اگر میں نہ مگر میں رکھا


حسنِ جنت کو بھی ہے اُس کی زیارت کی طلب

جانے اللّٰہ نے کیا یار کے در میں رکھا

دیگر کلام

چاند تاروں میں بھلا ہوتی کہاں تابانیاں

لطف و کرم حضور اگر آپ کا نہ ہو

وِرد ہے مشکبار پھولوں کا

یہ بات حقیقت ہے یہی میرا یقیں ہے

مِرے گھر آ گئے ہیں احمدِ مختار ’’بسم اللہ‘‘

آراستہ کروں گا یوں اپنے سفر کو میں

قلم بہرِ مدحت اٹھانے لگے ہیں

مجھ نعت کے گدا پہ یہ احسانِ نعت ہے

نہ قوسِ قزح نہ رنگِ گُل

تشنگی قلبِ پریشاں کی مٹا دو یارو