لطف و کرم حضور اگر آپ کا نہ ہو

لطف و کرم حضور اگر آپ کا نہ ہو

انسانیت سے کوئی بشر آشنا نہ ہو


اِک بار تیرے لطف کی ہو جائے ابتداء

واللّٰہ پھر تو اس کی کبھی انتہا نہ ہو


ممکن نہیں کہ سوچ میں رفعت ہو اور پھر

بے ساختہ قلم نے محمدﷺ لکھا نہ ہو


تیرا وہم حجاب ہے تیرا، وگرنہ سن !

ممکن نہیں انہوں نے صدا کو سنا نہ ہو


مِثْقَالَ ذَرَّۃ کے معانی یہی تو ہیں

محبوب دیکھ لے کہ کوئی رہ گیا نہ ہو


محشر کی تلخیاں اسے بے شک ڈرائیں گی

عشقِ رسول کا جسے تڑکا لگا نہ ہو


مشکل میں ایک بار پکارا ہو گر انہیں

دکھلاؤ وہ گرا کہ جو گر کر اٹھا نہ ہو


جو ہے، وہ مصطفٰی کی نظر میں ہے بے شبہ

وہ ہے نہیں، جو اِن کو دکھایا گیا نہ ہو


رخ پہ ترے نگاہ کے پڑنے کی دیر ہے

ممکن نہیں کہ دل ترے آگے جھکا نہ ہو


گردِ تبسم اُن کا ہے پہرہ لگا ہوا

اُن کا اگر نہ ہوں تو مرے ساتھ کیا نہ ہو

دیگر کلام

پر حقیقت حضور کا چہرہ

میری سانسوں میں روانی مصطفٰی کے دم سے ہے

کیسے ہماری قسمتِ خستہ ہو سامنے

مانگی تھی مدینے میں دعا اور طرح کی

چاند تاروں میں بھلا ہوتی کہاں تابانیاں

وِرد ہے مشکبار پھولوں کا

یہ بات حقیقت ہے یہی میرا یقیں ہے

مِرے گھر آ گئے ہیں احمدِ مختار ’’بسم اللہ‘‘

خواب نے مجھ کو مدینے کے نگر میں رکھا

آراستہ کروں گا یوں اپنے سفر کو میں