میری سانسوں میں روانی مصطفٰی کے دم سے ہے

میری سانسوں میں روانی مصطفٰی کے دم سے ہے

اب مرے شیطاں کو نسبت رنج سے ہے غم سے ہے


سارے عالم کی بہاریں اس کی قسمت پر فدا

جس کسی کا بھی تعلق جانِ دو عالم سے ہے


ایک آنسو عشقِ جاناں کی نمائش کر گیا

صرف مجھ کو یہ شکایت اپنی چشمِ نم سے ہے


پھول چہرہ گریہِ شب بے سبب کرتا نہیں

سردئ آتش کو نسبت قطرہِ شبنم سے ہے


ہم خیالِ یار پر ہی مر مٹیں تو کیا عجب

اور تم کو کیا توقع بد نصیبو ہم سے ہے


کیوں نہیں ہے اے تبسم تجھ کو بخشش کا یقیں

تیری نسبت خالقِ کونین کے محرم سے ہے

دیگر کلام

حق سرورِ عالم کا ادا کوئی نہ ہو گا

محمد لب کشا ہوں تو زباں سے پھول جھڑتے ہیں

ہم سے اب ہجر ہمارا نہیں دیکھا جاتا

جب ہم اِدھر سے حرفِ ثناء لے کے چل پڑے

پر حقیقت حضور کا چہرہ

کیسے ہماری قسمتِ خستہ ہو سامنے

مانگی تھی مدینے میں دعا اور طرح کی

چاند تاروں میں بھلا ہوتی کہاں تابانیاں

لطف و کرم حضور اگر آپ کا نہ ہو

وِرد ہے مشکبار پھولوں کا