حق سرورِ عالم کا ادا کوئی نہ ہو گا

حق سرورِ عالم کا ادا کوئی نہ ہو گا

یہ بھی تو حقیقت ہے خدا کوئی نہ ہوگا


جب تک نہ ہلیں گے لبِ سرکارِ مدینہ

واللّٰہ جہنم سے رِہا کوئی نہ ہو گا


ہے شافعِ محشر کی نگاہوں کا سہارا

ورنہ تو مرے حق میں کھڑا کوئی نہ ہو گا


کہتی ہے محمدﷺ کے ثناءخواں کی طبیعت

سرکار کی مدحت سا نشہ کوئی نہ ہو گا


اُس وقت سنانا مرے آقا کو مرا حال

جب پاس ترے بادِ صبا کوئی نہ ہو گا


محشر میں سوا آپ کے اے شافعِ محشر

پھیلائے ہوئے اپنی ردا کوئی نہ ہو گا


سرکار کی رحمت نے وہیں تھام لیا تھا

جب لگنے لگا مجھ کو مرا کوئی نہ ہو گا


ہے تجھ سے محبت کا یہ انعام انوکھا

سب تجھ پہ لُٹا کر بھی لُٹا کوئی نہ ہو گا


ہے اتنی کشش ارضِ مدینہ میں تبسم

خوش ہو کے مدینے سے گیا کوئی نہ ہو گا

دیگر کلام

یاد آتا ہے درِ جانِ جہاں پر بیٹھنا

سینہِ پر غم میں چاہت کا نشاں ہے دل کہاں ہے

اے محبِّ رونقِ عالمیں! ہو عطا تبسمِ مصطفٰی

نہ پل صراط نہ محشر کے دن سے ڈرتا ہے

دل مائلِ آرائشِ دنیا نہیں ہوتا

محمد لب کشا ہوں تو زباں سے پھول جھڑتے ہیں

ہم سے اب ہجر ہمارا نہیں دیکھا جاتا

جب ہم اِدھر سے حرفِ ثناء لے کے چل پڑے

پر حقیقت حضور کا چہرہ

میری سانسوں میں روانی مصطفٰی کے دم سے ہے