نہ پل صراط نہ محشر کے دن سے ڈرتا ہے

نہ پل صراط نہ محشر کے دن سے ڈرتا ہے

جو روز اپنے نبی پہ درود پڑھتا ہے


مہک سے جاتے ہیں اطراف مشک و عنبر سے

تمہارا نام خیالوں سے جب گزرتا ہے


درود پڑھنے کا رب یہ ثواب دیتا ہے

کہ سیئات کو حسنات سے بدلتا ہے


ہم اپنے رب کو بھی تجھ میں تلاش کرتے ہیں

ہمیں یقیں ہے خدا بھی یہیں سے ملتا ہے


جمالِ یار کی تابانیاں تو ایک طرف

خیالِ یار ہی مشکل کو ٹال دیتا ہے


خدا کرے کہ پہنچ جائے خیر سے آنسو

یہ گھر سے شہرِ نبی کیلئے نکلتا ہے


خیالِ گنبدِ خضرٰی کی رھنمائی سے

جہانِ حزن و الم کا مکیں سنبھلتا ہے


تبسمِ شہِ محشر خیال میں رکھ کر

تبسم اپنے تصور کو پاک رکھتا ہے

دیگر کلام

دو جہاں سرکار کی تملیک میں ہی ٹھیک ہیں

فہمِ بشر سے اونچی ہے تقریرِ والضحٰی

یاد آتا ہے درِ جانِ جہاں پر بیٹھنا

سینہِ پر غم میں چاہت کا نشاں ہے دل کہاں ہے

اے محبِّ رونقِ عالمیں! ہو عطا تبسمِ مصطفٰی

دل مائلِ آرائشِ دنیا نہیں ہوتا

حق سرورِ عالم کا ادا کوئی نہ ہو گا

محمد لب کشا ہوں تو زباں سے پھول جھڑتے ہیں

ہم سے اب ہجر ہمارا نہیں دیکھا جاتا

جب ہم اِدھر سے حرفِ ثناء لے کے چل پڑے