دل مائلِ آرائشِ دنیا نہیں ہوتا

دل مائلِ آرائشِ دنیا نہیں ہوتا

آنکھوں سے نہاں گنبدِ خضرٰی نہیں ہوتا


ہوتی ہیں مرے ساتھ ترے شہر کی یادیں

تاریکئِ شب میں بھی اکیلا نہیں ہوتا


یہ وعظ و نصیحت ہو مبارک تجھے واعظ !

ہم سے تو وہاں جالی کو پیچھا نہیں ہوتا


بوسہ نہ کبھی لیتے فرشتے مرے سر کا

نعلین کے نقشے پہ جو رکھا نہیں ہوتا


اُس وقت نہ لے جانا مری روح کو یا رب

جس وقت نگاہوں میں مدینہ نہیں ہوتا


سرکار کی بستی ہی وہ بستی ہے جہاں سے

ہوتا ہے عطا وہ بھی جو سوچا نہیں ہوتا


جیسا بھی خطاکار ہو پاجائے تسلّی

ہر خطہِ ارضی تو مدینہ نہیں ہوتا


ہو اتنا بلندی پہ کہ سدرہ کا مکیں ہو

پھر بھی ترے قدموں سے تو اونچا نہیں ہوتا


دل اُن کے تبسم کو دعا دیتا ہے ورنہ

پہلوئے تبسم میں دھڑکتا نہیں ہوتا

دیگر کلام

فہمِ بشر سے اونچی ہے تقریرِ والضحٰی

یاد آتا ہے درِ جانِ جہاں پر بیٹھنا

سینہِ پر غم میں چاہت کا نشاں ہے دل کہاں ہے

اے محبِّ رونقِ عالمیں! ہو عطا تبسمِ مصطفٰی

نہ پل صراط نہ محشر کے دن سے ڈرتا ہے

حق سرورِ عالم کا ادا کوئی نہ ہو گا

محمد لب کشا ہوں تو زباں سے پھول جھڑتے ہیں

ہم سے اب ہجر ہمارا نہیں دیکھا جاتا

جب ہم اِدھر سے حرفِ ثناء لے کے چل پڑے

پر حقیقت حضور کا چہرہ