یاد آتا ہے درِ جانِ جہاں پر بیٹھنا

یاد آتا ہے درِ جانِ جہاں پر بیٹھنا

اپنے پہلو میں دلِ مضطر دبا کر بیٹھنا


بے عطائے مصطفٰی ممکن نہیں واللّٰہ نہیں

گنبدِ خضرٰی کے جلووں کے برابر بیٹھنا


یہ نشستِ پُر کشش ہی ضامنِ فردوس ہے

ہاں! اٹھائیں گے تمہیں درباں بہت، پر بیٹھنا


آ گیا ہے میرے لب پہ یا رسول اللّٰہ مدد

اب مِرے غم! گول کر کے اپنا بستر بیٹھنا


بس ظہورِ حُسنِ محبوبِ خدا ہونے کو ہے

اے مِرے دل! ضبط کر، پہلو کے اندر بیٹھ نا!


یہ بھی اِک کیفیّتِ پر لطف سے کم تو نہیں

ہجرِ شہرِ مصطفٰی میں اٹھ کے شب بھر بیٹھنا


جستجوئے جلوہِ شانِ سخاوت ہے اگر

ان کے در پر لے کے نامِ ابنِ حیدر بیٹھنا


آپ آئیں یا نہ آئیں آپ کی مرضی حضور

منتظِر دل کو نہیں زیبا گِلہ کر بیٹھنا


رحمتِ کونین کی رحمت اُٹھی مثلِ صبا

دل کو تھامے عاصیانِ روزِ محشر! بیٹھنا


ہے یہ آدابِ درِ شاہِ دو عالم کے خلاف

اُن کے منگتے کا تبسم جا کے در در بیٹھنا

دیگر کلام

لفظِ سکون میں بھی کہاں اس قدر سکوں

خواب میں دید کے لمحات نے دم توڑ دیا

نہ آفتاب نہ روشن قمر کی حاجت ہے

دو جہاں سرکار کی تملیک میں ہی ٹھیک ہیں

فہمِ بشر سے اونچی ہے تقریرِ والضحٰی

سینہِ پر غم میں چاہت کا نشاں ہے دل کہاں ہے

اے محبِّ رونقِ عالمیں! ہو عطا تبسمِ مصطفٰی

نہ پل صراط نہ محشر کے دن سے ڈرتا ہے

دل مائلِ آرائشِ دنیا نہیں ہوتا

حق سرورِ عالم کا ادا کوئی نہ ہو گا