فہمِ بشر سے اونچی ہے تقریرِ والضحٰی

فہمِ بشر سے اونچی ہے تقریرِ والضحٰی

خاکی زبان کیا کرے تفسیرِ والضحٰی


ظلمت کدوں کے دل میں یہ پیوست ہو گئی

شانِ عجب لئے ہوئے شمشیرِ والضحٰی


اے باسیانِ تِیرہ مقدر ! اٹھو چلو

وہ بٹ رہی ہے دیکھ لو تنویرِ والضحٰی


تحت السرٰی تا عرش تو معلوم حد ہوئی

از، تا ،کی حد سے بڑھ کے ہے جاگیرِ والضحٰی


حبِّ کمال اور خدا کی نگاہِ خاص

اس کے سوا ہے کیا بھلا اکسیرِ والضحٰی


اِس کے لئے ضروری نہیں شقِّ صدر ہو

برہانِ حُسنِ قلب ہے تذکیرِ والضحٰی


اس لفظ کے حجاب اٹھیں اُس کے واسطے

مشرب ہو جس کسی کا بھی تشہیرِ والضحٰی


صرف اس لئے لحد سے تبسم ہے بے خطر

ہو گی وہاں پہ رویتِ تصویرِ والضحٰی

دیگر کلام

اپنی بخشش کیلئے رو کے الگ بات کروں

لفظِ سکون میں بھی کہاں اس قدر سکوں

خواب میں دید کے لمحات نے دم توڑ دیا

نہ آفتاب نہ روشن قمر کی حاجت ہے

دو جہاں سرکار کی تملیک میں ہی ٹھیک ہیں

یاد آتا ہے درِ جانِ جہاں پر بیٹھنا

سینہِ پر غم میں چاہت کا نشاں ہے دل کہاں ہے

اے محبِّ رونقِ عالمیں! ہو عطا تبسمِ مصطفٰی

نہ پل صراط نہ محشر کے دن سے ڈرتا ہے

دل مائلِ آرائشِ دنیا نہیں ہوتا