اپنی بخشش کیلئے رو کے الگ بات کروں

اپنی بخشش کیلئے رو کے الگ بات کروں

کیوں نہ سرکار سے میں ہو کے الگ بات کروں


گنبدِ سبز کو آنکھوں سے جو کچھ کہنا ہو

بہتے اشکوں سے نظر دھو کے الگ بات کروں


بات تو کر لوں مگر پھر یہ خیال آتا ہے

کوئی صدّیق ہوں میں جو کے الگ بات کروں


سوچتا ہوں کہ خدوخالِ غمِ عقبٰی سے

ارضِ دل میں ترا غم بو کے الگ بات کروں


وہ بھی دن آئے کہ میں آپ سے اے فخرِ جہاں

دنیا والوں سے پرے، سو کے الگ بات کروں


نعت کہتا رہوں، یہ وقت نہ آئے آقا

تیرے قدموں کے نشاں کھو کے الگ بات کروں


وادئ خوابِ تبسم میں مرے مرکزِ دل

اپنی تصویر اتارو کہ الگ بات کروں

دیگر کلام

خوشبوئے گلستان نہ شبنم ہے معتبر

شہرِ نبی کی جب سے لگن اور بڑھ گئی

جس نے بھی ہوا خیر سے کھائی تِرے در کی

بے سبب تو نے اے دربان ہمیں روک دیا

اس قدر ہے مرا رابطہ آپ سے

لفظِ سکون میں بھی کہاں اس قدر سکوں

خواب میں دید کے لمحات نے دم توڑ دیا

نہ آفتاب نہ روشن قمر کی حاجت ہے

دو جہاں سرکار کی تملیک میں ہی ٹھیک ہیں

فہمِ بشر سے اونچی ہے تقریرِ والضحٰی