خواب میں دید کے لمحات نے دم توڑ دیا

خواب میں دید کے لمحات نے دم توڑ دیا

یوں لگا ارض و سمٰوٰت نے دم توڑ دیا


دیکھ کر اُن کی عطائوں کا تسلسل یکدم

دل میں ہی سارے سوالات نے دم توڑ دیا


آپ کی عظمتِ معراج کے آغاز پہ ہی

دنیا والوں کے کمالات نے دم توڑ دیا


سوچ لیتا میں بھلا اور کسی کو کیسے

روبرو نعت کے ہر بات نے دم توڑ دیا


خواب میں آپ کے قدموں سے مِرے ہونٹوں کی

بات جاری تھی مگر رات نے دم توڑ دیا


اُس مسیحا نے مِرا حال ہی پوچھا تھا ابھی

غم میں ڈوبے ہوئے حالات نے دم توڑ دیا


کتبہِ قبر پہ لکھنا کہ ثناء کرتے ہوئے

اِس فقیرِ درِ سادات نے دم توڑ دیا


وقتِ میلاد کی مقروض ہے انسانیّت

اُن کے آنے سے خرافات نے دم توڑ دیا


حلقہِ نعت میں زندہ ہے تبسم اب تک

صرف مٹی سے بنی ذات نے دم توڑ دیا

دیگر کلام

جس نے بھی ہوا خیر سے کھائی تِرے در کی

بے سبب تو نے اے دربان ہمیں روک دیا

اس قدر ہے مرا رابطہ آپ سے

اپنی بخشش کیلئے رو کے الگ بات کروں

لفظِ سکون میں بھی کہاں اس قدر سکوں

نہ آفتاب نہ روشن قمر کی حاجت ہے

دو جہاں سرکار کی تملیک میں ہی ٹھیک ہیں

فہمِ بشر سے اونچی ہے تقریرِ والضحٰی

یاد آتا ہے درِ جانِ جہاں پر بیٹھنا

سینہِ پر غم میں چاہت کا نشاں ہے دل کہاں ہے