سینہِ پر غم میں چاہت کا نشاں ہے دل کہاں ہے

سینہِ پر غم میں چاہت کا نشاں ہے دل کہاں ہے

یہ خطیبِ عشقِ جانِ دو جہاں ہے ، دل کہاں ہے


میری آنکھوں نے ابھی دیکھا ہی تھا روضہ ترا

دھڑکنیں کہنے لگیں مجھ سے کہاں دل کہاں ہے


باہر آئے اپنی سوچوں سے قدم بوسی کرے

بے حجاب اک پیکرِ رشکِ جِناں ہے دل کہاں ہے ؟


دل ہے گم تعظیمِ نقشِ پا میں اور سینے میں یہ

زندگی کی اِک دلیلِ ناتواں ہے ، دل کہاں ہے


میں تلاشِ دل میں سوئے شہرِ طیبہ چل پڑا

پیچھے پیچھے سارا حسنِ کہکشاں ہے دل کہاں ہے ؟


جب سے وہ گزرے خیالوں سے تبھی سے جسم میں

خوشبوؤں کا ایک بحرِ بے کراں ہے ، دل کہاں ہے


میں تبسم اپنے پہلو پر فدا سو جان سے

اِس میں اِک شیریں تبسم ضوفشاں ہے، دل کہاں ہے

دیگر کلام

خواب میں دید کے لمحات نے دم توڑ دیا

نہ آفتاب نہ روشن قمر کی حاجت ہے

دو جہاں سرکار کی تملیک میں ہی ٹھیک ہیں

فہمِ بشر سے اونچی ہے تقریرِ والضحٰی

یاد آتا ہے درِ جانِ جہاں پر بیٹھنا

اے محبِّ رونقِ عالمیں! ہو عطا تبسمِ مصطفٰی

نہ پل صراط نہ محشر کے دن سے ڈرتا ہے

دل مائلِ آرائشِ دنیا نہیں ہوتا

حق سرورِ عالم کا ادا کوئی نہ ہو گا

محمد لب کشا ہوں تو زباں سے پھول جھڑتے ہیں