بے سبب تو نے اے دربان ہمیں روک دیا

بے سبب تو نے اے دربان ہمیں روک دیا

دیکھ لیجے مرے سلطان! ہمیں روک دیا


نامہ پڑھنے ہی لگے تھے کہ اچانک رب نے

کہہ کے احمد کا ثناء خوان ہمیں روک دیا


ہم بھی کھو جاتے کہیں حسنِ زمانہ میں مگر

گنبدِ سبز پہ قربان، ہمیں روک دیا


جب مری قبر سے لوٹیں تو فرشتے یوں کہیں

تیرے محبوب نے رحمان! ہمیں روک دیا


ہم تو تیّار تھے سجدے کو مگر آقا نے

اپنا جاری کیا فرمان ، ہمیں روک دیا


بس تبسم نے کہا آقا تبسم کیجے

مشکلیں ہو گئیں حیران، ہمیں روک دیا

دیگر کلام

راتوں کی خلوتوں کا سکوں لاجواب ہے

وارفتگانِ شوق و عزیزانِ باوفا

خوشبوئے گلستان نہ شبنم ہے معتبر

شہرِ نبی کی جب سے لگن اور بڑھ گئی

جس نے بھی ہوا خیر سے کھائی تِرے در کی

اس قدر ہے مرا رابطہ آپ سے

اپنی بخشش کیلئے رو کے الگ بات کروں

لفظِ سکون میں بھی کہاں اس قدر سکوں

خواب میں دید کے لمحات نے دم توڑ دیا

نہ آفتاب نہ روشن قمر کی حاجت ہے