لفظِ سکون میں بھی کہاں اس قدر سکوں

لفظِ سکون میں بھی کہاں اس قدر سکوں

جتنا حضور آپ کے دربار پر سکوں


ہر چیز مصطفٰی کا مدینہ تو ہے نہیں

دل میں جگہ بنا لے تو پھر عمر بھر سکوں


سمجھا نہیں ہے عظمتِ دربارِ مصطفٰی

ڈھونڈے فقیرِ طیبہ اگر دربدر سکوں


دنیائے مضطرب کو کوئی تو شعور دو

ہیں جس طرف حضور ملے گا اُدھر سکوں


پھر یوں ہوا کہ گنبدِ خضرٰی پہ جا پڑی

کرتے ہوئے تلاش ہماری نظر سکوں


پھر پھر کے ڈھونڈتا ہے غلامانِ یار کو

رہتا ہے کائنات میں محوِ سفر سکوں


جب سے تبسم اُن کی ثناء بولنے لگا

رہتا ہے اِس کے دل سے بہت باخبر سکوں

دیگر کلام

شہرِ نبی کی جب سے لگن اور بڑھ گئی

جس نے بھی ہوا خیر سے کھائی تِرے در کی

بے سبب تو نے اے دربان ہمیں روک دیا

اس قدر ہے مرا رابطہ آپ سے

اپنی بخشش کیلئے رو کے الگ بات کروں

خواب میں دید کے لمحات نے دم توڑ دیا

نہ آفتاب نہ روشن قمر کی حاجت ہے

دو جہاں سرکار کی تملیک میں ہی ٹھیک ہیں

فہمِ بشر سے اونچی ہے تقریرِ والضحٰی

یاد آتا ہے درِ جانِ جہاں پر بیٹھنا