ہم سے اب ہجر ہمارا نہیں دیکھا جاتا

ہم سے اب ہجر ہمارا نہیں دیکھا جاتا

دور سے شہر تمہارا نہیں دیکھا جاتا


عرش نے آپ کے نعلین کو دیکھا، تو کہا

اس سے اوپر کا نظارا نہیں دیکھا جاتا


منکرِ شانِ شفاعت یہ بتا! کیوں تجھ سے

بے سہاروں کا سہارا نہیں دیکھا جاتا


قدسی ہو کر بھی خطاکاروں کے جیسے تو نہیں

اُن سے تو طیبہ دوبارہ نہیں دیکھا جاتا


ہو کے شبیر کا شیدائی جہنم میں جلے

مصطفٰی سے یہ نظارا نہیں دیکھا جاتا


ایڑیاں دیکھ کے بولے یہ جنابِ خورشید

حُسنِ سرکار ہے، سارا نہیں دیکھا جاتا


دیکھئے قلبِ تبسم کی طرف بھی آقا

خواہشِ وصل کا مارا نہیں دیکھا جاتا

دیگر کلام

اے محبِّ رونقِ عالمیں! ہو عطا تبسمِ مصطفٰی

نہ پل صراط نہ محشر کے دن سے ڈرتا ہے

دل مائلِ آرائشِ دنیا نہیں ہوتا

حق سرورِ عالم کا ادا کوئی نہ ہو گا

محمد لب کشا ہوں تو زباں سے پھول جھڑتے ہیں

جب ہم اِدھر سے حرفِ ثناء لے کے چل پڑے

پر حقیقت حضور کا چہرہ

میری سانسوں میں روانی مصطفٰی کے دم سے ہے

کیسے ہماری قسمتِ خستہ ہو سامنے

مانگی تھی مدینے میں دعا اور طرح کی