مانگی تھی مدینے میں دعا اور طرح کی

مانگی تھی مدینے میں دعا اور طرح کی

دے فکر مجھے میرے خدا اور طرح کی


جنت جو حسیں ہے تو اِسی ورد کے صدقے

ہے شہرِ مدینہ کی ہوا اور طرح کی


دنیا کے فقیر اس کی طرح ہو نہیں سکتے

رکھتا ہے طلب ان کا گدا اور طرح کی


ہے نطقِ رُسُل حشر میں "تم جاؤ کہیں اور"

لیکن ہے محمدﷺ کی صدا اور طرح کی


کاسہ لئے ہے در پہ کھڑی حسن کی دنیا

ہے آپ کی ایک ایک ادا اور طرح کی


اے زائرِ طیبہ تری آنکھوں پہ فدا میں

ان آنکھوں میں ہے بات ذرا اور طرح کی


کیوں مرضِ تبسم کی گرہ کھول رہے ہو

اس کی تو طبیبو ہے دوا اور طرح کی

دیگر کلام

ہم سے اب ہجر ہمارا نہیں دیکھا جاتا

جب ہم اِدھر سے حرفِ ثناء لے کے چل پڑے

پر حقیقت حضور کا چہرہ

میری سانسوں میں روانی مصطفٰی کے دم سے ہے

کیسے ہماری قسمتِ خستہ ہو سامنے

چاند تاروں میں بھلا ہوتی کہاں تابانیاں

لطف و کرم حضور اگر آپ کا نہ ہو

وِرد ہے مشکبار پھولوں کا

یہ بات حقیقت ہے یہی میرا یقیں ہے

مِرے گھر آ گئے ہیں احمدِ مختار ’’بسم اللہ‘‘