وِرد ہے مشکبار پھولوں کا

وِرد ہے مشکبار پھولوں کا

کملی والے کے چار پھولوں کا


خاکِ طیبہ جِسے میسر ہو

کیوں کرے انتظار پھولوں کا


اُن کی سانسوں سے بھیک لیتا ہے

موسمِ خوشگوار پھولوں کا


مجھ کو رہنے دو فکرِ طیبہ میں

کیا کروں گا میں یار، پھولوں کا


آپ کیا مسکرائے گلشن میں

بڑھ گیا ہے وقار پھولوں کا


جِس گلِ تر کو آپ نے تھاما

بن گیا تاجدار پھولوں کا


حُسنِ طیبہ کی بھیک لیتے ہی

بڑھ گیا اعتبار پھولوں کا


آپ ہی گر نہ دیکھنے آئیں

کیا کرے گی بہار پھولوں کا


ہے تبسم جو اِذنِ نعت تجھے

ہے گلے میں یہ ہار پھولوں کا

دیگر کلام

میری سانسوں میں روانی مصطفٰی کے دم سے ہے

کیسے ہماری قسمتِ خستہ ہو سامنے

مانگی تھی مدینے میں دعا اور طرح کی

چاند تاروں میں بھلا ہوتی کہاں تابانیاں

لطف و کرم حضور اگر آپ کا نہ ہو

یہ بات حقیقت ہے یہی میرا یقیں ہے

مِرے گھر آ گئے ہیں احمدِ مختار ’’بسم اللہ‘‘

خواب نے مجھ کو مدینے کے نگر میں رکھا

آراستہ کروں گا یوں اپنے سفر کو میں

قلم بہرِ مدحت اٹھانے لگے ہیں