قلم بہرِ مدحت اٹھانے لگے ہیں

قلم بہرِ مدحت اٹھانے لگے ہیں

مدینے سے الفاظ آنے لگے ہیں


کسی کو یہ بس چاند سورج لگے ہیں

ہمیں تو نبی کے دیوانے لگے ہیں


مدینے پہنچ کر بھلا دیں یہ باتیں

پہنچنے میں کتنے زمانے لگے ہیں


حضور آپ کا نام لب پہ سجا کر

مصائب کو ہم آزمانے لگے ہیں


یہ بس چاہتِ مصطفٰی کا اثر ہے

ہمیں دیکھو، ہم چاہے جانے لگے ہیں


فرشتو رکو اتنی جلدی بھی کیا ہے

وہ میرے نبی ہیں نا، آنے لگے ہیں


ترے آستانے کے دیوار و در بھی

ہمیں یاد بن کر ستانے لگے ہیں


اسیرانِ حسنِ مدینہ کو رضوان

آوازیں دے کر بلانے لگے ہیں


بھلا اس سے بڑھ کر کریمی بھی ہو گی

تبسم سے بھی طیبہ جانے لگے ہیں

دیگر کلام

وِرد ہے مشکبار پھولوں کا

یہ بات حقیقت ہے یہی میرا یقیں ہے

مِرے گھر آ گئے ہیں احمدِ مختار ’’بسم اللہ‘‘

خواب نے مجھ کو مدینے کے نگر میں رکھا

آراستہ کروں گا یوں اپنے سفر کو میں

مجھ نعت کے گدا پہ یہ احسانِ نعت ہے

نہ قوسِ قزح نہ رنگِ گُل

تشنگی قلبِ پریشاں کی مٹا دو یارو

جس کو کوئی آپ کے جیسا لگا

نسلِ حق کی باتیں کر کر کے جئیں تو نعت ہو