نسلِ حق کی باتیں کر کر کے جئیں تو نعت ہو

نسلِ حق کی باتیں کر کر کے جئیں تو نعت ہو

عشق میں سر مست ہو کر کچھ پئیں تو نعت ہو


تیرگی کے زخم وہ آ کر سئیں تو نعت ہو

نعلِ پا سر پہ کبھی رکھ لیں اگر تو نعت ہو


عقل ان کے روبرو ہو جائے سر تو نعت ہو

تختِ محمودی کی جانب ہو سفر تو نعت ہو


نامِ احمد حرزِ جاں ہو جائے گر تو نعت ہو

عطر اُن کی جستجو کا ہو ثمر تو نعت ہو


تشنہ آنکھیں دیکھیں اُن کی رھگزر تو نعت ہو

نشترِ حق سے جگر چھلنی اگر ہو، نعت ہو


عاصیوں کے حال سے وہ باخبر ہو، نعت ہو

تب تو پل پر طائرِ سدرہ کا پر ہو، نعت ہو


نقل اُن کی کرتے جانا کرتے جانا نعت ہے

عقل کو اُس پار اکیلے چھوڑ آنا نعت ہے


تتلیوں سے نازک اُن کو جان لینا نعت ہے

نم نگاہوں سے انہیں کو یاد کرنا نعت ہے


عینِ رحمت مصطفٰی کو مان لینا نعت ہے

تختہِ حیرت پہ چڑھ کے لٹک جانا نعت ہے


نسخہِ مہرِ علی ہی بے شک اصلِ نعت ہے

عقل چپ کر جا کہ واللّٰہ یہ محلِّ نعت ہے


تارِ جڑ جائے مدینے سے تو شکلِ نعت ہے

نون، عین، اور تاء میں نعتِ و عشق کی تاذین ہے


ورنہ خالق کے سوا زیبا کسے تحسین ہے

دیگر کلام

قلم بہرِ مدحت اٹھانے لگے ہیں

مجھ نعت کے گدا پہ یہ احسانِ نعت ہے

نہ قوسِ قزح نہ رنگِ گُل

تشنگی قلبِ پریشاں کی مٹا دو یارو

جس کو کوئی آپ کے جیسا لگا

نعت لکھتے ہوئے اِک مدحً سرا کیف میں ہے

حضورِ عالی کی مدحت کا لطف لیتا ہوں

طیبہ کی یاد جانے کہاں لے گئی مجھے

یہ ہے بزمِ رحمتِ دو جہاں

لِلّہ الحمد کہ ہم نے اسے چاہا آہا