یہ بات حقیقت ہے یہی میرا یقیں ہے

یہ بات حقیقت ہے یہی میرا یقیں ہے

جو کچھ بھی سوا آپ کے ہے کچھ بھی نہیں ہے


فرصت سے جسے بیٹھ کے افلاک بھی سوچیں

ہاں ہاں وہ مدینے کی پرانوار زمیں ہے


عنوانِ جہاں میرے شنہشاہ سا اِک بھی

سرنامہِ عالم میں دکھاؤ جو کہیں ہے


تاریخ کے لہجے میں مٹھاس آپ کے دم سے

اور کل کا مقدر بھی ترے زیرِ نگیں ہے


یہ راز حسینوں کا عیاں کردہ ہے لوگو

دنیا بھی حسِیں تب ہے کہ وہ ذات حسیں ہے


عشاق کی خوش ذوق نگاہوں کیلئے ہی

دریوزہ گری کرتی یہاں خلدِ بریں ہے


بخشا ہے تبسم کو یہاں اذن ثناء کا

سرکار کے شکرانے کو سجدے میں جبیں ہے

دیگر کلام

کیسے ہماری قسمتِ خستہ ہو سامنے

مانگی تھی مدینے میں دعا اور طرح کی

چاند تاروں میں بھلا ہوتی کہاں تابانیاں

لطف و کرم حضور اگر آپ کا نہ ہو

وِرد ہے مشکبار پھولوں کا

مِرے گھر آ گئے ہیں احمدِ مختار ’’بسم اللہ‘‘

خواب نے مجھ کو مدینے کے نگر میں رکھا

آراستہ کروں گا یوں اپنے سفر کو میں

قلم بہرِ مدحت اٹھانے لگے ہیں

مجھ نعت کے گدا پہ یہ احسانِ نعت ہے