چاند تاروں میں بھلا ہوتی کہاں تابانیاں

چاند تاروں میں بھلا ہوتی کہاں تابانیاں

منکرِ نورِ نبی! اب چھوڑ دے نادانیاں


میں تو پھس جاتا خدا کے روبرو محشر کے دن

اُن کے لب ہلتے گئے ہوتی گئیں آسانیاں


ماورائے عقل ہو کے مصطفٰی کو مان لے

دور لے جائیں تجھ کو یہ تری من مانیاں


رحمتیں ہرگز نہ مجھ کو ڈھونڈتی روزِ جزاء

میں نہ کرتا گر محمدﷺ کی قصیدہ خوانیاں


چاند سورج کہکشائیں آپ کے زیرِ نگیں

عالمیں پر چل رہی ہیں آپ کی سلطانیاں


آپ کے رخ پر فدا حسن و جمالِ گلستاں

آپ کی آنکھوں پہ قرباں ساری سرمہ دانیاں


خوشبوئیں، ساری بہاریں، خوبرو کلیاں سبھی

تیرے عارض کی تمازت کی ہیں سب دیوانیاں


مجھ تبسم کو مدینے سے بلاوا آ گیا

لے پکڑ شیطان اپنی سب کی سب شیطانیاں

دیگر کلام

جب ہم اِدھر سے حرفِ ثناء لے کے چل پڑے

پر حقیقت حضور کا چہرہ

میری سانسوں میں روانی مصطفٰی کے دم سے ہے

کیسے ہماری قسمتِ خستہ ہو سامنے

مانگی تھی مدینے میں دعا اور طرح کی

لطف و کرم حضور اگر آپ کا نہ ہو

وِرد ہے مشکبار پھولوں کا

یہ بات حقیقت ہے یہی میرا یقیں ہے

مِرے گھر آ گئے ہیں احمدِ مختار ’’بسم اللہ‘‘

خواب نے مجھ کو مدینے کے نگر میں رکھا