خورشید جِس کے نُور کا ایک اقتباس ہَے

خورشید جِس کے نُور کا ایک اقتباس ہَے

اُس کا جمال میری نظر کا لباس ہَے


دستِ کرم کِسی نے مِرے مُنہ پہ رکھ دیا

مَیں کہنا چاہتا تھا مرا دل اُداس ہے


مِلتا ہے روز تیرے وسیلے سے ہم کو رزق

جو معترف نہیں ہے نمک ناشناس ہے


دُنیا نہ دے مُجھے مِرے حصّے کی نعمتیں

جس میں تری تڑپ ہے وہ دل میرے پاس ہے


مَیں قُرب چاہتا ہُوں، مرا پوچھنا ہی کیا

لیکن تری رضا ہے تو فرقت بھی راس ہے


مہکی ہُوئی ہے کوچہ و بازار کی ہَوا

محسوس ہو رہا ہے کوئی آس پاس ہے


حضرت مَیں التماس کروں بھی تو کیا کروں

حضرت مرا تمام وجُود التماس ہے


کیسے بُجھے گی جُرعۂ دیدار کے سِوا

یہ دِل کی تشنگی ہے یہ آنکھوں کی پیاس ہے


عاصؔی کو چشمِ لُطف سے آسی بنادیا

اُس ذات پاک نے جو غریبوں کی آس ہے

شاعر کا نام :- عاصی کرنالی

کتاب کا نام :- حرف شیریں

دیگر کلام

اُڑ کے بال و پرِ تصوّر پر

مَیں کہاں فن کہاں کمال کہاں

تُو قاسمِ انوار ہے جب تُو نے نظر کی

شرف ملا بشریّت ذو الاحترام ہُوئی

فلک اُن سے فضا اُن سے نجوم و ماہتاب اُن سے

امام الانبیاء ختم الرّسل نورِ خدا کہیے

اک روز مرے خواب میں آئیں تو عجب کیا

منوّر ہو گئی دنیا ہوئے سرکار جب پیدا

نازشِ فن اور ادب کی چاشنی نعتِ نبی

مظہر ذاتِ خدا فخرِ رسالت لکھنا