مَیں کہاں فن کہاں کمال کہاں

مَیں کہاں فن کہاں کمال کہاں

نعت لکھّوں مِری مجال کہاں


عِشق اُن کا مسرّتِ ابدی

اَب مَیں آزردۂ ملال کہاں


ہم تو ہیں منزلِ حضُوری میں

سفرِ فرقت و وصال کہاں


اُن کا ہر حُکم اِک اٹل قانون

حُکمِ حاکم میں قیل و قال کہاں


شہرِ طیبہ میں ارضِ ملتاں میں

کیا خبر ہوگا انتقال کہاں


جب اُسے لوگ دیکھ سکتے تھے

لے اُڑا طائرِ خیال کہاں


مِری آنکھیں تو ہیں مِری آنکھیں

تیرا نظّارۂ جمال کہاں


جھولیاں بھر رہی ہیں آپ ہی آپ

یعنی گنجائشِ سوال کہاں


ہم تو جنّت میں جائیں گے عاصؔی

نارِ دوزخ کا احتمال کہاں

شاعر کا نام :- عاصی کرنالی

کتاب کا نام :- حرف شیریں

دیگر کلام

ہر طرف جب ترے انوار جھلکتے جائیں

آگے بڑھتا ہُوں تو مَیں عرش سے ٹکراتا ہُوں

اُسی نے نقش جمائے ہیں لالہ زاروں پر

دلِ ناداں نہ حرصِ دُنیا کر

اُڑ کے بال و پرِ تصوّر پر

تُو قاسمِ انوار ہے جب تُو نے نظر کی

شرف ملا بشریّت ذو الاحترام ہُوئی

فلک اُن سے فضا اُن سے نجوم و ماہتاب اُن سے

خورشید جِس کے نُور کا ایک اقتباس ہَے

امام الانبیاء ختم الرّسل نورِ خدا کہیے