تُو قاسمِ انوار ہے جب تُو نے نظر کی

تُو قاسمِ انوار ہے جب تُو نے نظر کی

تقدیر چمکنے لگی خُورشید و قمر کی


شاید تِرا پیغام صَبا گزری ہے لے کر

خوشبُو یہی کہتی ہے مُجھے راہگزر کی


جب تک نہ لیا تیری توجّہ سے اُجالا

قندیل فروزاں نہ ہُوئی فکر و نظر کی


جب تک نہ مرتّب کیا اک دستِ کرم نے

زُلفیں ہی پریشاں رہیں تہذیبِ بشر کی


جب تک نہ ملی تیرے تبسّم سے تجلّی

پھیکی ہی رہیں رنگتیں رخسارِ سحر کی


مَیں اور مسلسل تپشِ ہجرِ مدینہ

ناساز طبیعت ہے مرے قلب و جگر کی


مَیں تیرے سوا اور کِسی سے نہیں واقف

صد شُکر یہی حد ہے مِرے عِلم و خبر کی


سب میرا ازل، میرا ابد اُس پہ نچھاور

جو ساعتِ نایاب حضُوری میں بسر کی


قدموں میں تو حاضر ہُوں طلب اور کروں کیا؟

اب مُجھ کو ضروت ہے دُعا کی نہ اثر کی


اُس جانِ بہاراں پہ نثار اس کے سبھی پھُول

یہ نعت جو کیاری ہے مرے دستِ ہُنر کی


طیبہ میں ہُوں اب اور کہاں جاؤں گا عاصؔی

یہ منزلِ آخر ہے مُسافر کے سفر کی

شاعر کا نام :- عاصی کرنالی

کتاب کا نام :- حرف شیریں

دیگر کلام

آگے بڑھتا ہُوں تو مَیں عرش سے ٹکراتا ہُوں

اُسی نے نقش جمائے ہیں لالہ زاروں پر

دلِ ناداں نہ حرصِ دُنیا کر

اُڑ کے بال و پرِ تصوّر پر

مَیں کہاں فن کہاں کمال کہاں

شرف ملا بشریّت ذو الاحترام ہُوئی

فلک اُن سے فضا اُن سے نجوم و ماہتاب اُن سے

خورشید جِس کے نُور کا ایک اقتباس ہَے

امام الانبیاء ختم الرّسل نورِ خدا کہیے

اک روز مرے خواب میں آئیں تو عجب کیا