خوشبو کا مستقر ہے دیارِ رسولؐ میں

خوشبو کا مستقر ہے دیارِ رسولؐ میں

جنت کی رہ گزر ہے دیارِ رسولؐ میں


ذرے ہیں ماہتاب تو پتھر ہیں آفتاب

ہر چیز معتبر ہے دیارِ رسولؐ میں


حرفِ ندا بھی حرفِ دُعا بھی ہے پُر اثر

ہر حرف کارگر ہے دیارِ رسولؐ میں


پتھر پگھل کے بہہ گئے آنکھوں کے راستے

اشفاقؔ چشمِ تر ہے دیارِ رسولؐ میں


تاریکیاں ہیں شہرِ مدینہ سے بے خبر

ہر ذرہ ہی قمر ہے دیارِ رسولؐ میں


ہوتی ہے ہر گدا کی جہاں پوری آرزو

اِک ایسا سنگِ در ہے دیارِ رسولؐ میں


حرفِ دُعا ہے بابِ اثر کے قریب تر

ہر بات پر اثر ہے دیارِ رسولؐ میں


اشفاقؔ وہ بھی کر لے طلب جو نہیں کیا

تقدیر اوج پر ہے دیارِ رسولؐ میں

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ خلد

دیگر کلام

سات افلاک ترےؐ پورب و پچھم تیراؐ

زباں کو جب سے ثناء کی ڈگر پہ ڈالا ہے

اے سرورِ کون و مکاںؐ صلِ علیٰ صلِ علیٰ

بڑے ادب سے جھکا کے نظریں

وہ آگہی کا علم اُٹھائے حضورؐ آئے

حضورؐ آپؐ نے ذروں کو ماہتاب کیا

وقتِ آخر حضورؐ آ جانا

نعت کا ذوق ملا حرف کی جاگیر ملی

حسن و خوشبو جو مدینے کے چمن زار میں ہے

کوئی گھڑی ہو کوئی ہو موسم درود تجھؐ پر سلام تجھ ؐپر