لفظ ہیں نعت کے پہچان میں آ جاتے ہیں

لفظ ہیں نعت کے پہچان میں آ جاتے ہیں

’’لفظ خود نعت کے امکان میں آ جاتے ہیں‘‘


جب قلم کو میں اٹھاتا ہوں برائے مدحت

لفظ الہام کے دیوان میں آ جاتے ہیں


جو محمد کی غلامی میں سدا رہتے ہوں

وہ شفاعت کی گھنی شان میں آ جاتے ہیں


جب مرے آقا محمد ہی خیالوں میں رہیں

اُن پہ لکھنے کو یہ من تان میں آ جاتے ہیں


ذکر سن لیتے ہیں جس وقت شہِ عالم کا

مستیٔ چرخ سے وجدان میں آ جاتے ہیں


ہر طرف جلوۂ سرکار نظر آتا ہے

جب بھی ہم حلقۂ قرآن میں آ جاتے ہیں


وہ جو قربان ہوئے سرورِ عالم کے لئے

فرد وہ سایۂ فیضان میں آ جاتے ہیں


عشقِ احمد میں کریں دانت فدا جو قائم

حربۂ سنگ سے عرفان میں آ جاتے ہیں

شاعر کا نام :- سید حب دار قائم

کتاب کا نام :- مداحِ شاہِ زمن

دیگر کلام

نبی کا اشارہ شجر کو رسائی

زبان و دل سے مدحت کا جہاں بھر سے بیاں ارفع

جست میں عرش تک فاصلہ ہو گیا

مدینہ ہے ارم کا ایک ٹکڑا یا رسول اللہ

زمیں کی ظلمتوں کو نور سے اپنے مٹایا ہے

نظر آتے نہیں حالات اور آثار ،یا اللہ

کبھی گُل رُو کے شانوں پر علی مولا عیاں دیکھے

زیست میں اپنی بہاراں کیجئے

احمدِ مجتبیٰ سے مطلب ہے

لگا رہی ہے صدا یوں صبا مدینے میں