مہِ صفا ہو سرِ خواب جلوہ گراے کاش

مہِ صفا ہو سرِ خواب جلوہ گراے کاش

ہو نور نور مرا قریہء نظر اے کاش


گلِ نظارہ کی خوشبو سے صحنِ جاں مہکے

زرِ عطا سے بھرے کاسہ ہنر اے کاش


اتارنے کے لیے اشک آئنوں میں وہ عکس

نظر کے سامنے پھر ہو نبیؐ کا در اے کاش


کروں مدینے میں شام ِ طرب کا استقبال

ستارہ ہو مری قسمت کا اوج پر اے کاش


اترتی دیکھوں سَحَر روز اُن کے قدموں میں

دُعا ئے نیم شبی میں ہو یہ اثر اے کاش


ہیں جس کی خاک میں آسُودہ رحمتؐ ِعالم

وہی دیار بنے میرا مستقر اے کاش


سفر عدم کا جو درپیش ہو مجھے تائبؔ

دیارِ نور کی خوشبو ہو ہمسفر اے کاش

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

مرکز میرے فکر کا وہ مکّی محبُوب

مہِ صفا کی تجلّیوں سے چمک ا ٹھا ریگ زارِ بطحا

مزاجِ زندگی ہے سخت برہم سیّدِؐ عالم

پر کرے گا کون رُوحوں کے خلا یا مصؐطفےٰ

رنگِ فطرت آپؐ کے فیضان سے نِکھرا حضورؐ

آپؐ ہیں طغرائے آیاتِ ظہور آقا حضورؐ

کتابِ زیست کا عنواں محؐمّدِ عربی

آئے ہیں جب وہ منْبر و محراب سامنے

جتنی اُلجھنیں ہیں ، جتنی کلفتیں ہیں

اعزاز یہ سرکارؐ کی سیرت کے لیے ہے