پر کرے گا کون رُوحوں کے خلا یا مصؐطفےٰ
تیری چشمِ لطف و رحمت کے سوا یا مصؐطفےٰ
کٹ کے ہم رستے سے تیرے جس قدر آگے بڑھے
جسم و جاں کا فاصلہ بڑھتا گیا یا مصؐطفےٰ
مال و منصب ، مکر وفن ٹھہرے ہیں معیارِ شرف
مِٹ رہا ہے جذبہ مہر و وفا یا مصؐطفےٰ
خیر کشیوں کے جہاں میں اُکھڑے اُکھڑے ہیں قدم
یوں ہے برگشتہ زمانےکی ہوا یا مصؐطفےٰ
دوڑتا ہے میری آنکھوں کی طرف دِل کا لہوُ
دیکھ کر ہر گام پر خونِ حیا یا مصؐطفےٰ
زیر دستوں پر مظالم ، حق پرستوں کا مذاق
کیا نہیں دیکھا بنامِ ارتقا یا مصؐطفےٰ
مَیں نے شہر آشوب لکھا ہے بہ امّیدِ کرم
اب تو شہر افروز دیکھوں مصؐطفےٰ یا مصؐطفےٰ
دہر میں پھر اہلِ دیں کو سرفرازی ہو نصیب
لوٹ آئے دور عدل و خیر کا یا مصؐطفےٰ
شاعر کا نام :- حفیظ تائب
کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب