مدحت کے پھول پیش کروں بارگاہ میں

مدحت کے پھول پیش کروں بارگاہ میں

ورنہ کوئی سرور نہیں واہ واہ میں


پر کیف و دلنشیں ہے مدینے کا راستہ

ایسی کشش کہاں ہے کسی شاہراہ میں


دیکھا ہے میں نے روضہء انور قریب سے

جچتا نہیں ہے اب کوئی منظر نگاہ میں


ستر ہزار نوری فرشتوں کا ہے ہجوم

بارانِ جانفزا ہے تریؐ جلوہ گاہ میں


ریگِ عرب کے ذرّے بھی اشفاقؔ ضوفشاں

ہے ایسی آب و تاب کہاں مہر و ماہ میں

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ خلد

دیگر کلام

طیبہ میں ہے قرار دلِ بے قرار کا

نور کے جلوے ہوا کی مشکباری واہ واہ

یکتا یگانہ دلنشیں محبوبِؐ ربّ العالمیں

کب یہ چاہا ہے مجھے لعل و گہر مل جائے

کعبؓ و حسّانؓ کی تقلید ہوئی

آرزوئیں بھی مشکبو کیجے

اگر مِل جائے اذنِ باریابی

اے فخرِ رُسلؐ فخرِ بشرؐ سید ثقلینؐ

اے قاسمِ الطاف و عطا سیدِ لولاکؐ

پرندے فکر کے جب مائلِ پرواز ہو جائیں