ملتا ہے بحرِ درد سے دیدہ نم کا سلسلہ

ملتا ہے بحرِ درد سے دیدہ نم کا سلسلہ

تا بہ ابد رواں دواں ان کے کر م کا سلسلہ


صبحِ ظہور اک طرف، یومِ نشور اک طرف

دونوں سے ہے جڑا ہو اصدرِ امم کا سلسلہ


خاک سے تا بہ آسماں چرخ سے تا بہ لامکاں

پھیل گیا کہاں کہاں حسنِ حرم کا سلسلہ


اک سحرِ شعور ہے ، اک نظامِ نور ہے

میر عرب کی زندگی ، شاہِ عجم کا سلسلہ


سبزہ و گل حضورؐ کی رحمتِ بیکراں کے رنگ

نجم و قمر جنابؐ کے نقشِ قدم کا سلسلہ


پڑھتا ہوا درودِ پاک اٹھوں بروزِ حشر مَیں

نامِ نبیؐ لبوں پہ ہو ٹوٹے جو دم کا سلسلہ


قدسی و انس و جاں ہوئے ذاتِ احد کے ہمنوا

زمزمہء درود ہے فیض اتم کا سلسلہ


تائب کم سواد کو ایک جھلک سے ہی نواز

مہرِ حرا تمام کر شام ِ الم کا سلسلہ

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

لفظ کے بس میں نہ تھا عرضِ تمنا کرنا

ہر امکانِ ثنا سے ہے فزوں شانِ شہؐ والا

بس گیا چاند حرا کا دل میں

صیغہء حمد سے و ہ اسم ِ شریف

پلکوں پہ تھا لرزاں دل دربارِ رسالتؐ میں

تجلیات کا گلزار مسجدِ نبوی

حسنِ محبوبِؐ خدا میں گم ہوں

دل کو درِ سیّدِ ابرارؐ سے نسبت

نورِ امکا ں کا خزانہ درِ والا ان کا

شوق باریاب ہو گیا