شہِ امم کے عشق کا حسین داغ چاہئے

شہِ امم کے عشق کا حسین داغ چاہئے

لحد کی تیرگی میں ضوفشاں چراغ چاہئے


حسن، حسین، فاطمہ، ابو تراب، مصطفیٰ

جہاں یہ پانچ پھول ہوں مجھے وہ باغ چاہئے


بھٹک رہے ہیں خواب ایک دید کی تلاش میں

اماوسوں کو صبحِ نور کا سراغ چاہئے


بروزِ حشر دستِ مرمریں سے اس غلام کو

حضور! آبِ سلسبیل کا ایاغ چاہئے


نہیں ہے نکتہ دانیوں کا شوق یا نبی مجھے

رہے جو آپ کا مطیع و ہ دماغ چاہئے


بنا رہا ہوں زادِ راہ لفظ لفظ جوڑ کر

سفر کی سب صعوبتوں سے انفراغ چاہئے


مرا کلام آپ کی سماعتوں کی نذر ہو

برائے حرفِ نعت جادۂ بلاغ چاہئے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

شاہ کی توصیف ہر پل زینتِ قرطاس ہو

لپٹ کر سنگِ در سے خوب رو لوں

مونس و ہمدم و غمخوار مدینے والے

مدینہ دیکھ کر دل کو بڑی تسکین ہووے ہے

حضور آئے، روشنی سے انسلاک ہو گیا

بامِ قوسین پر ہے علم آپ کا

یسار تورے یمین تورے

اشکوں کو کوئے نور کا سجدہ عطا ہوا

عشقِ سرور میں بے قرار آنکھیں

تیری توصیف ہوگی رقم دم بہ دم