عشقِ سرور میں بے قرار آنکھیں

عشقِ سرور میں بے قرار آنکھیں

خوش مقدر ہیں اشکبار آنکھیں


خوبصورت ہے جس کا ہر منظر

ڈھونڈتی ہیں وہی دیار آنکھیں


حسرتِ دید لے کے پلکوں میں

ان کا کرتی ہیں انتظار آنکھیں


جلوہ گر ہے جو دشتِ طیبہ میں

مانگتی ہیں وہی غبار آنکھیں


پانی پانی ہوئیں مواجہ پر

جرمِ عصیاں سے داغدار آنکھیں


میں تہی دست کاش کر سکتا

روحِ کونین پر نثار آنکھیں


وقتِ رخصت دیارِ خوشبو کو

مڑ کے دیکھیں گی بار بار آنکھیں

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

حضور آئے، روشنی سے انسلاک ہو گیا

شہِ امم کے عشق کا حسین داغ چاہئے

بامِ قوسین پر ہے علم آپ کا

یسار تورے یمین تورے

اشکوں کو کوئے نور کا سجدہ عطا ہوا

تیری توصیف ہوگی رقم دم بہ دم

نعت لکھنے کا جب بھی ارادہ کیا

مرا واسطہ جو پڑے کبھی کسی تیرگی کسی رات سے

اگر وہ دیکھ لیں مجھ کو جو اک نظر بھر کے

میرے ہونٹوں پہ ترا نام تری نعت رہے