اگر وہ دیکھ لیں مجھ کو جو اک نظر بھر کے

اگر وہ دیکھ لیں مجھ کو جو اک نظر بھر کے

بدل ہی جائیں مقدر مجھ ایسے کمتر کے


ہجوم نوری فرشتوں کا ہوگا نادیدہ

قدم اٹھاتا ہوں کوئے نبی میں ڈر ڈر کے


نظر پھرے گی کسی اور سمت کیوں اس کی

ملا ہو آپ کا دیدار جس کو مر مر کے


اسی کے دم سے بہاریں ہیں صحنِ گلشن میں

چمن پہ لاکھ ہیں احسان اس گلِ تر کے


ترے دیار میں ہم تشنہ کام آئے ہیں

عطا ہوں جام ہمیں سلسبیل و کوثر کے


نگاہ چوم رہی تھی سنہری جالی کو

قرار ملتا تھا آنکھوں کو یہ عمل کر کے


ملا ہے ان کی اجازت سے یہ حسیں منظر

درِ رسول سے پھر کیوں مری نظر سر کے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

اشکوں کو کوئے نور کا سجدہ عطا ہوا

عشقِ سرور میں بے قرار آنکھیں

تیری توصیف ہوگی رقم دم بہ دم

نعت لکھنے کا جب بھی ارادہ کیا

مرا واسطہ جو پڑے کبھی کسی تیرگی کسی رات سے

میرے ہونٹوں پہ ترا نام تری نعت رہے

خلقِ خدا میں فائق صلِ علیٰ محمد ﷺ

میں نعت لکھ دوں کریم آقا ردیف کر کے

دل نشیں ہیں ترے خال و خد یانبی

شاداں ہیں دونوں عالم، میلادِ مصطفیٰ پر