مرا واسطہ جو پڑے کبھی کسی تیرگی کسی رات سے

مرا واسطہ جو پڑے کبھی کسی تیرگی کسی رات سے

میں کشید کرتا ہوں روشنی ترے نام سے تری نعت سے


ترے در کے قرب و جوار سے مرا ہر خیال جڑا رہے

رہوں منسلک ترے شہر سے ترے سنگِ در، تری ذات سے


تری رفعتیں ہیں فلک فلک، ترا تذکرہ ہے زباں زباں

تری گفتگو کریں بلبلیں کبھی ڈال سے کبھی پات سے


تو نہ ہو تو کون و مکان میں نہ ہو زندگی کی ذرا رمق

ترے واسطے سے جہان کا ہے بحال ربط حیات سے


ترا ذکر راحتِ قلب ہے ترا نام ماحیٔ معصیت

ترے تذکرے ہی پہ ختم ہو چلے بات جب تری بات سے


ترے عشق نے اے انیسِ جاں مرے روم روم کو مات دی

مجھے کامران کیا گیا اسی قلب و جان کی مات سے


یہ جو ہے بپا یہی حشر ہے اسی نفسی نفسی کے دور میں

ہے یہ فکر، دامنِ مصطفیٰ کہیں چھوٹ جائے نہ ہات سے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

یسار تورے یمین تورے

اشکوں کو کوئے نور کا سجدہ عطا ہوا

عشقِ سرور میں بے قرار آنکھیں

تیری توصیف ہوگی رقم دم بہ دم

نعت لکھنے کا جب بھی ارادہ کیا

اگر وہ دیکھ لیں مجھ کو جو اک نظر بھر کے

میرے ہونٹوں پہ ترا نام تری نعت رہے

خلقِ خدا میں فائق صلِ علیٰ محمد ﷺ

میں نعت لکھ دوں کریم آقا ردیف کر کے

دل نشیں ہیں ترے خال و خد یانبی