طیبہ کے تاجدار نے دی زندگی نئی
وہ آئے اور پھیل گئی روشنی نئی
نعتِ رسول کی جو یہ محفل سجی نئی
ہر ہر نَفَس میں دوڑ گئی تازگی نئی
قرآن نے حیات کا وہ فلسفہ دیا
جس کے سبب جہاں کو ملی زندگی نئی
ہم کو دیا نبی نے مساوات کا سبق
انسان کے شعور کو دی تازگی نئی
اخلاص اور صدق کا جذبہ عطا کیا
بخشا اصولِ امن نیا آشتی نئی
خُلقِ نبی سے ہم کو ملا درسِ نظم و ضبط
انسان دوستی کی ملی چاشنی نئی
کردارِ مصطفیٰ نے سکھایا ہمیں یہی
اوروں کے کام آؤ ملے گی خوشی نئی
سردارِ دوجہاں کا ہے بستر چٹائی پر
ہر اک ادا میں آپ کی ہے سادگی نئی
دنیا میں دور دورہ جہالت کا جب بڑھا
اسلام لایا ایسے میں تہذیب ہی نئی
طیبہ کے گلستاں میں ذرا چل کے دیکھیے
اس کی روش روش پہ ملے سرخوشی نئی
روضہ نبی کا جس نے بھی دیکھا ہے اک نظر
محسوس ہو رہی ہے یہ دنیا نئی نئی
تاثیر ہے یہ شاہِ مدینہ کے نام میں
لیتے ہی نام منہ میں گھلے چاشنی نئی
پڑھیے درود اور سلام ان کے نام پر
محسوس ہوگی روح میں اک تازگی نئی
نعتِ رسول میں نے پڑھی نجدی جل گیا
یہ پھانس اس کے قلبِ سیہ میں چھبی نئی
اچھے میاں کے در پہ مریدوں کی بھیڑ ہے
دل میں ہر اک مرید کے وارفتگی نئی
مرشد کی اک نگاہ کے ہم بھی ہیں منتظر
بس اک نظر کہ ہم کو ملے زندگی نئی
مرشد کے ہاتھ پر جو تہہ دل سے بک گیا
روحانیت کی مل گئی اک آگہی نئی
نظمی نے جب سے دیکھا ہے روضہ حضور کا
چھائی ہوئی ہے قلب پہ اک بے خودی نئی
شاعر کا نام :- سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی
کتاب کا نام :- بعد از خدا