ساری دنیا کیوں ہوئی شیطاں کی بہکائی ہوئی

ساری دنیا کیوں ہوئی شیطاں کی بہکائی ہوئی

مادّے کے پھیر میں روحانیت آئی ہوئی


منجمد ہر ایک دل ہر آنکھ پتھرائی ہوئی

ہر نفس گمراہ ہے ہر عقل بہکائی ہوئی


پتھروں کے شہر میں نکلے ہیں اینٹوں کے جلوس

آدمیت کانچ کے گھر میں ہے گھبرائی ہوئی


کب دھماکے ہوں چھناکے ہوں کسی کو کیا خبر

دل کی دھڑکن خوف و دہشت سے ہے تھرّائی ہوئی


پھر مشیّت نے لکھی تحریر ان کے نام پر

جن کے صدقے میں رسالت کی پذیرائی ہوئی


فتح مکہ ہوگیا اوندھے گرے سب دیوتا

آج ہر سو ہر طرف توحید ہے چھائی ہوئی


پھر ہوا دورہ اماں کا اور معافی کی عطا

حکمرانوں کی انا ہے آج شرمائی ہوئی


جو محمد کا ہوا اللہ اس کا ہو گیا

جو پھرا الٹے قدم پھر اس کی رسوائی ہوئی


َلو لگائی جس نے طیبہ سے وہی فاتح رہا

اک نگاہِ مصطفی ٹالے بلا آئی ہوئی


نظمی تم نے نعت کو پہنایا اسلوبِ جدید

نعت گوئی بھی کھڑی ہے آج اترائی ہوئی

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

حشر کے دن واجب ٹھہرے گی کس کی شفاعت ان کی ان کی

طیبہ کے تاجدار نے دی زندگی نئی

میرے دل میں ہے جستجوئے نبیؐ

حبِ احمد میں چھپی ہے زندگی

نعتِ رسولِ اکرم ہے ذکرِ صبح گاہی

جیسے میرے آقا ہیں کوئی اور نہیں ہے

بشارتیں جس کی انبیا دیں یہ تذکرہ اس مجیب کا ہے

کرم مجھ پر بھی بس اتنا مرے سرکار ہو جائے

رحمت سراپا نورِ نبوت لیے ہوئے

الفاظ نہیں ملتے سرکار کو کیا کہیے