ترا کرم ہے کہ میں سر اُٹھا کے چلتا ہوں

ترا کرم ہے کہ میں سر اُٹھا کے چلتا ہوں

دیئے انا کے ہوا میں جلا کے چلتا ہوں


عجب سُرور ہے آقاؐ تری محبت کا

میں ہوش میں ہوں مگر لڑکھڑا کے چلتا ہوں


بڑے بڑوں کو بھی لاتا نہیں میں خاطر میں

بڑے بڑوں سے نگاہیں مِلا کے چلتا ہوں


قدم قدم پہ جو بیٹھے ہیں خود خدا بن کر

انہی بُتوں کو زمیں پر گِرا کے چلتا ہوں


چھلک نہ جائے کہیں دل تری محبت سے

میں لمحہ لمحہ اسی کو بچا کے چلتا ہوں


خوشی ملے تو میں روتا ہوں ٹُوٹ کر برسوں

وفُورِ غم سے مگر مسکرا کے چلتا ہوں

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

ہر تمنا ہی عاجزانہ ہے

دُنیا اُس کی ہے متوالی

فرشتوں کے دل پر بھی جس کا اثر ہے

عمر ہو میری بسر اُس شہر میں

ترا وجود ہے روشن پیام خوشبو ہے

ترے خیال ترے نام سے لپٹ جاؤں

کوئی نبی نہ ہوگا ہمارے نبی کے بعد

محبت کے چشمے ابلنے سے پہلے

آنکھوں سے چھلکتا ہے ایمان مدینے میں

گھپ اندھیرا تھا یہاں بزمِ حِرا سے پہلے