ترے خیال ترے نام سے لپٹ جاؤں

ترے خیال ترے نام سے لپٹ جاؤں

ستارہ بن کے تری شام سے لپٹ جاؤں


ترے قفس میں تڑپنا ہے میری آزادی

میں آپ چل کے ترے دام سے لپٹ جاؤں


ادب ہے رہ میں رکاوٹ وگرنہ دل چاہے

میں آگے بڑھ کے ترے جام سے لپٹ جاؤں


میں تیرے شہر کے منظر اُٹھالوں پلکوں پر

میں دھوپ بن کے درو بام سے لپٹ جاؤں


کھلا ہے دل میں جو یادوں کا اِک دریچہ سا

میں اُس دریچۂ بے نام سے لپٹ جاؤں

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

دُنیا اُس کی ہے متوالی

فرشتوں کے دل پر بھی جس کا اثر ہے

عمر ہو میری بسر اُس شہر میں

ترا وجود ہے روشن پیام خوشبو ہے

ترا کرم ہے کہ میں سر اُٹھا کے چلتا ہوں

کوئی نبی نہ ہوگا ہمارے نبی کے بعد

محبت کے چشمے ابلنے سے پہلے

آنکھوں سے چھلکتا ہے ایمان مدینے میں

گھپ اندھیرا تھا یہاں بزمِ حِرا سے پہلے

آپ کی یادوں سے مہکی دل کی دھڑکن رات بھر